’’بہت دکھی دل کے ساتھ آپ کو بتارہی ہوں‘ میرے شوہر نے میرےساتھ پسند کی شادی کی تھی اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور ایک بیٹی دی۔ شوہر شروع ہی سے گرم مزاج‘ اتنا گرم مزاج کہ یہ بھی نہیں دیکھتے تھے کہ میں کس کے سامنے اور کہاں ہوں؟ میں سب کچھ برداشت کرتی رہی‘ میرے شوہر ایک شعبے میں ملازمت کرتے تھے مناسب گزارا ہورہا تھا لیکن ان کے غصے اور گرم مزاجی نے ان کی وہ جاب چھڑا دی کہ میرا اس پر گزارا نہیں ہوتا اور ان لوگوں کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہیں حالانکہ خود ان کا رویہ ان لوگوں کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ پھر انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک اور بزنس شروع کیا لیکن نمبردو بزنس‘ نمبرایک نوکری چھوڑ کر نمبردو بزنس کیا۔حالات تو اچھے ہوگئے کاروبار‘ چہل پہل‘ لباس‘ کپڑے‘کھانا پینا بظاہر رزق کی فراوانی لیکن ادھر سے گھر کی بربادی شروع ہوگئی۔ میرے شوہر اپنے آپ کو زمین کا خدا سمجھنے لگے۔ ماں باپ بہن بھائیوں کے ساتھ نہایت گستاخانہ اور بدتمیزی کا رویہ۔ ماں کو جی بھر کر دکھ دیا اور ماں کی جی بھر کر بے عزتی کی‘ ماں پیاسی اور سسکتی نظروں سے اسے دیکھتی رہتی کہ شاید کبھی اچھے لہجے اور اچھے رویے سے یہ شخص مجھے دیکھ لے لیکن آج تک اس بندے نے نہ میٹھا بول بولا‘ نہ میٹھی آنکھیں دیکھیں اور نہ میٹھی چال چلا۔ اس کی چال میں تکبر‘ غرور‘ بدتمیزی اور اکڑ تھی‘ اس کے بولوں میں کڑواہٹ تھی‘ اس کے لہجے میں کھٹاس تھی‘ آخر اسی حالت میں ماں اللہ کو پیاری ہوگئی‘ یوں یہ گھر والوں سے اور دور ہوگیا۔ اس کے اسی غصے‘ اکڑپن‘ تکبر ‘غرور اور مزاج کی تلخی اور تیزی کی وجہ سے تمام گھر والے حتیٰ کے رشتے دار سب اس سے دور ہوگئے۔ اس کاوہی دونمبر کام چلتا رہا ۔ پھر اس کی زندگی میں ایک غیرمذہب لڑکی آگئی‘ جو اس کے بہت قریب ہوگئی‘ ہوٹلوں میں ملاقاتیں ہونا شروع ہوگئیں۔ پھر شوہر کو نامعلوم کیا ہوا اس نے تمام لوگوں کا پیسہ اکٹھا کیا جو پینتالیس لاکھ سے زیادہ تھا اور بیرون ملک ہمیں روتا‘ سسکتا چھوڑ کرچلا گیا اور یہاں تک بھول گیا کہ میری بیوی اور بچے بھی تھے‘ وہاں یہ سارا پیسہ اجاڑ کر آخر کار پاکستان اس لڑکی کے ساتھ واپس آگیا۔ اس لڑکی کے والدین نے لڑکی کو اپنے گھر بٹھالیا اور بہت بڑی رقم کا مطالبہ کرنے لگے‘ اب عالم یہ ہے کہ یہ پاکستان کے ایک چھوٹے سےشہر میں چھپ کررہ رہا ہے ہروقت لوگوں سے جھوٹ بولتا ہے‘ دھوکہ دیتا فریب کرتا ہے۔ اسے اپنے خاندان کی‘ اپنے گھر کی ‘اپنی بیوی کی‘ اپنی اولاد کی کوئی پرواہ نہیں۔سڑک بازار‘ گھر برادری ہرجگہ‘ ہرکسی کی بے عزتی کرتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے کون ہے‘ کیا ہے؟ بس اس کا مزاج وہی ہے حالانکہ وہ عورت بھی اس سے دور ہوگئی۔ دولت‘ مال‘ چیزیں دونمبر جہاں سے آئیں تھیں‘ وہاں واپس چلی گئیں۔ یہ خالی اور فقیروں کی طرح سڑکوں کے گشت کرتا ہے‘ اب تو میرے بچے بڑے ہوگئے ہیں کہتے ہیں ماما‘ بابا کو گھر نہ آنے دیں۔ بچے باپ سے نفرت کرتے ہیں۔ چونکہ میں آپ کے تسبیح خانہ سے متعلق ہوں‘میں نے بچوں کی تربیت بہت اچھی کی ہے بچوں کے اندر باپ والا مزاج نہیں ہے لیکن میری زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ میرا سکھ لٹ گیا ہے‘ میرا چین لٹ گیا ہے۔ اے کاش! میں محبت کی شادی نہ کرتی! ایک خواب مجھے بار بار آتا ہے اور کئی بار آیا ہے پھر یہ خواب خیالوں کی شکل میں میرے ذہن میں ہروقت سوار رہتا ہے۔ اس محبت کی شادی میں میرا باپ مجھ سے ناراض تھا‘ میرے بہن بھائی اور خاص طور پر میری ماں بہت ناراض اوردکھی تھی‘ آج بھی وہ آنسو‘ وہ آہیں‘ وہ سسکیاں جو شاید اب میرا مقدر بن کر رہ گئی ہیں‘ میں نے بے شمار بار اپنی ماں کے چہرے پر دیکھیں۔ حضرت حکیم صاحب! مجھے ماں کی بددعائیں کھا گئیں‘ مجھے باپ کی آہیں کھاگئیں میں ہر محبت کرنے والی بیٹی اور بھائی سے کہوں گی خدارا تسبیح خانہ سے جڑجائیں آپ جہاں بھی ہیں‘ موبائل کے ذریعے مسلسل تسبیح خانہ کے درس سنیں اور کبھی بھی پیار اور محبت کی شادی نہ کریں۔ اپنا سب کچھ اپنے والدین کے حوالے کردیں اور اپنے مزاج میں دھیما پن‘ ٹھنڈاپن پیدا کریں اور غصے کو ختم کردیں۔ بس! اے کاش وہ دن کیا تھا جب یہ غصے والا شخص میری زندگی میں آیا اس نے مجھے بہت خواب دکھائے‘ میں اپنی پیاری ماں کو بھول بیٹھی‘ میں اپنے عظیم باپ کو فراموش کربیٹھی‘ میں ساتھ کھیلنے والے بہن بھائیوں کو نفرت سے دیکھنے لگی‘ مجھے صرف اس شخص سے محبت تھی‘ باقی سارے معاشرے سے نفرت تھی۔ اے کاش! ایسا نہ کرتی‘ یااللہ! اس ظلم کی سزا جو تونے مجھے دی ہے‘ میری نسلوں کو بچا‘ ہرکسی کی بیٹی اور بیٹے کو پیار عشق اور محبت کی شادی سے بچالے۔ حکیم صاحب !خدارا مجھے سکون چاہیے‘ مجھے چین چاہیے‘ مجھے امن اور عافیت چاہیے۔ کیا یہ مل سکتا ہے؟ مجھے علم ہے آپ مجھے کہیں گے ماں باپ کو راضی کر‘ بہن بھائیوں کو منا اور اگر تیری ماں زندہ ہے اور باپ حیات ہے تو ان کو اتنا راضی کر اتنا راضی اتنا راضی کر کہ وہ دل سے تجھے معاف کردیں اور جو اندر سے اٹھنے والی آہیں ہیں وہ دعاؤں میں بدل جائیں تب تو تیرا کوئی کام بن سکتا ہے ورنہ ہرگز نہیں! ‘‘قارئین! یہ خط میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اس کا جواب میں کیا دوں مجھےآپ سے اس کا جواب چاہیے معاشرے میں لو‘ محبت ‘پیار‘ میسج اور نیٹ کی شادی کا جو رواج چل پڑا ہے اس شادی کا آخر انجام کیا ہوتا ہے؟ سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں ہمارے معاشرے میں بھری ہوئی ہیں ‘کبھی اس معاشرے کی مثالوں کو نظرانداز نہ کیجئے بلکہ ہروقت اس مثال کو مثال سمجھیں کیونکہ یہ مثالیں جن میں عبرت‘ انجام اور مکافات ہوتا ہے ہمیشہ بے مثال ہوتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں